اصل آرٹیکل: https://wichm.home.xs4all.nl/newage3.html
نئی عمر کی جڑیں
نئی عمر کی تحریک شاید ہی ناول ہے! اس کی فلسفے کی جڑیں قدیم روایات میں ہے، اکثر صوفیانہ تھربات کی بنیاد پرِ ہر ایک مختلف تناظر میں ہے۔
![]() |
نظریاتی طور پر، ہمیشہ ایک ‘آدم’ معاشرے کے اندر مردوں کو خصوصی علم اور طاقت رکھنے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ طبّ کے مرد، یا قبیلے کے، ایک تنقیہ نفس (catharsis) کا آغاز کیا تھا، یا پھر شروع کر دیا گیا تھا اور خاندان کے لئیے روح کے ساتھ رابطے کو برقرار رکھنے کے لئیے دنیا میں بُلایا گیا تھا
جب کمیونٹیز کو زیادہ پیچیدہ اور منظّم بنادیا گیا تو ان کے لئیے بہت کم جگہ تھی۔ معاشرہ خصوسی بننے لگا، لوگوں احساس ہونے لگا اور محسوس کیا کہ ہم پیشہ لوگوں (guilds) یا معاشروں کا گروپ بننیں تاکہ مسلسل اور بڑھتے ہوئے کمال کو یقینی بنایا جاسکے۔ دنیائے روح کے ساتھ رابطے منظم مذاہب کے ہاتھ میں دے دئیے گئے تھے، جس میں نامعلوم اوراعلیٰ ترین طاقت کے بارے میں سوالات کے لئیے ایک قائم جواب فراہم کیا گیا۔
وہ لوگ جو خاص اختیارات کے ساتھ اپنے آپ کو عطا کردہ سمجھتے ہیں وہ مشکل ہی سے اپنے آپ کو قائم کردہ ایمان میں شکم بند (corset) کرسکتے ہیں۔ وہ زیر زمین چلے گئے۔ ابھی تک وہ اس جدوجہد میں ہی ہیں کہ وہ برادری کے ارواح سے رابطہ کریں اور لوگ اس بات کے لئیے تیار ہیں کہ کام کو آگے منتقل کرنے کے لئیے ان کے نقش قدم کی پیروی کریں۔
باطل روایات کو روحانی گروہوں، کمیونٹی یا برادری میں وراثت کے طور پر آگے منتقل کرنا بنا دیا گیا۔ ان کے باہمی عقیدت کے نتیجے میں کمال کی بڑی ڈگری ہم پیشہ کاریگروں کے موازنہ پر تھی۔ ان کے صوفیانہ تجربات میں انہوں نے ایک روحانی حقیقت کو دیکھا جو شاید گرجا گروں کی طرف سے دی گئی، اصولی نمائندگی سے میل نہیں پاسکتی۔ تجربات کی منتقلی کے وقت، ان کو نہایت احتیاط برتنی ہوتی ہے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ بدعتی (heresy) کا الزام لگایا جائے۔ جبکہ علمی دماغ والے ان کی چھپی ہوئی تحریروں ، علامتی نمائندگی یا ان کے اشاروں کو سمجھ سکتے ہیں۔
ان تمام روکاوٹوں اور مخالفتوں کے باوجود، چھپی ہوئی روحانی روایات نامعلوم ساحلوں تک پہنچ جاتی! ان میں سے ایک یورپ ہے، جہاں قدیم روایات میں دلچسپی مختلف اوقات میں بحال کی گئی تھی۔
ان روایات کے مفادات میں تبدیلی لائی گئی۔ زوال کے ادوار کے بعد، اکثر ثقافتی اور سیاسی حالات کے نتیجے میں، پرانے طور پر بھولے اقدار کی بحالی کے لئیے اس کی پیروی کرنے کی ضرورت تھی۔ خفیہ روایت اس قدر طاقتور ہے کہ ان کو کچلا نہیں جا سکتا۔ یہ ترقی اور زوال کے ادوار میں نشوونما پاتا ہے ــــــ ہر حیات نو ایک تازہ نقطہء نظر کے ساتھ، وقت کی روح کے مطابق ہوتا ہے۔
ان روحانی، مذہبی اور جادوئی روایتوں میں یہ شرح سود انسان کے ذہنوں پر زبردست اثر رکھتا تھا۔ ساٹھویں صدی کے آخر میں نئی عمر کی تحریک کی مقبولیت ایک تازہ ترین بحالی تھی۔
مندرجہ ذیل میں اس کے نقطہء آغاز کا مختصرخاکہ ابواب میں تقسیم ہے:
- یونانی اسرار اور فلسفہ
- عیسائی میراث
- عناسطیت
- یہودی تصوّف اور کبالحہ کیمیاء گری
- کیمیاء گری
- حیات نو
- فری نظام میسن
- روسی کروشی
- زمانہء روشن خیالی
- تنویم اور فرانسیسی انقلاب
حصہء دوئم:
یورپی روایات
یونانی اسرار اور فلسفہء/ عیسائیت:
ساتویں اور پانچویں صدیوں کی خصوصیات فلسفیانہ مذاہب کے عالمی پیدائش کے انداز غور کے حیرت انگیز گہرائی کی وجہ سے ہے۔ لاؤ- ٹسی (Lao-Tse) اور کنگ – فو- ٹسی (Kung-Fu-Tse) کنفیوشس (Confucius) چائنا میں، ہندوستان میں نہاتما بدھ اور مہاویر، فارس میں زاریتھوسٹرا (Zarathustra) ،فلسطین میں انبیاء اور یونان میں فلاسفرز۔ ان عظیم متقیّوں سے ایک کوشش شروع کی گئی تاکہ ان وقتوں کے پُرانے قصّوں اور توّہم پرستی کو برتر کیا۔ اسکے اور گہرے نقطہءنظر کو پیش کیا جاسکے۔ ایک خلاصہ، صوفیانہ انداز کے دیکھنے اور حقیقت کا سامنا کرنے کی راہ کو ہموار کیا جارہا تھا۔
ان میں سے بعض روایات یونانی ثقافت پر منحصر ہیں۔ مغربی یورپی آدمی نے اپنے سوچ کی دُنیا کے بارے میں مشرقی وسطیٰ کے ساتھ تعلقات کے ذریعے سیکھا اور خاص کر یونانی فلسفیانہ کام کے لاطینی تراجم سے سیکھا۔ اس عظیم تہذیب کے بارے میں علم مغربی علاقے سے آئی البتہ اس کا یونانی ورژن بلاواسطہ طور پر آیا۔ مصر سے حقیقی رابطے کا کوئی وجود نہیں۔
یونانی، ذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے ان کے فلسفے جو ان کی مذہبی روایات کی بنیاد ہیں اور جو تجارت یا جنگوں کے ذریعے سے دوسری ثقافتوں تک پہنچ رہی ہیں، ان میں جذب ہوتے ہیں۔ مصر میں شروع ہونے والے عقائد، ٹہراکیان آرفک اسرار (Thracian Orphic Mysteries) اور دیگر رسومات اور مذہب کے طرز عمل ان میں سے تھے جن کو پہلے ہی سے اپنا لیا گیا تھا۔
خدا ہرمیس ٹرزمجسٹس (God Hermes Trismegistus = thrice great) (= بہت اچھے) کوسمجھتے تھے کہ وہ قدیم مصری حکمت کے خدا تھوٹ(Thoth) کے ساتھ یکساں ہیں۔ البتہ، جدید تحقیق نے یہ بھی دکھایا ہے کہ مصری جادو اور صوفیانہ کام جو کہ ہرمیس(Hermes) سے منسوب کئیے گئے ہیں دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں لکھی گئیں تھیں۔ ان خیالات کو ہرمیٹک فلاسفی کے نام سے جاننا جاتا تھا۔ ان کا سب سے اہم کام Corpus Hermeticum ہے، جو کہ علم نجوم ، رسائن، حکمت یزدانی اور معجزات پر مشتمل پندرہ متون کی ایک تالیف ہے۔
عیسائی میراث
اسراراسکول (Mystery School) کی روایات کے پیش نظر عیسائیت کا سب سے زیادہ اثر مغرب پر پڑا۔ اصل میں خالص یہودی فرقہ یہ فراموش کر چکے تھے کہ جب رومیوں نے یروشیلم کو تباہ وبرباد کردیا تھا اور 70 کی دہائی میں بہت سے تارک وطن باشندوں نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ یہودی اور غیر قوموں کی کمیونٹیز نے اپنی مرضی کے مطابق ان کی جڑوں کو مارا تھا۔
چند دستاویزات کی بنیاد پر جوکہ بعد کی صدیوں سے زندہ بچ گئے تھے، علماء نے انہیں میراث سمجھا جو کہ یہودی حکمت کے استاد جوشووا(Joshua) یونانی میں یسوع (in Greek Jesus) کے اردگرد جڑیں مار رہا تھا۔ عیسائیت جو اس میں سے بن گئی تھی، نے اس کے مقبول کافر مذہبی عقائد کو اپنے اندر جذب کرلیا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے منسوب خصوصیات میں اس وقت خدا کی طرف سے احترام ان لوگوں کی عکاسی ہے۔ گوڈمین اوسیرس داؤنیسس (Godman Osiris – Dionysis) کو مثال کے طور پر خدا کا بیٹا سمجھا جاتا تھا اور تین چرواہوں کے سامنے 25 دسمبر کو ایک کنواری کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔
غناسیت:
غناسیت مصر سے شروع ہوا۔ اسکندریہ کے نو افلاطونی عرفانی اسکول (The neo-platonic Gnostic School) پہلی صدی عیسوی میں اس کا مرکز بن گیا۔ اس میں سے عیسائی، غیر یہودی اور یہودی غناسیت نے جنم لیا۔ اس کے بعد یہودی کبالحہ بچ گئے۔
مختلف عرفانی فرقے نے ابتدائی عیسائیت اور انجیل کے قیام میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے میراث کو جڑوں سے اکھاڑ دیا گیا تو ان کے اثرورسوخ اور روایات کو دبا دیا گیا۔ حکمران اقتدار کا ایمان اس وقت خراب ہوگیا جب شہنشاہ کانسٹنٹائن (Emperor Constantine) نے عیسائیت کو چوتھی صدی عیسوی میں ریاستی مذہب بنایا اور اپنے آپ کو عملی طور پر اس کا سربراہ بنادیا۔
غناسیت حوصلہ افزائی کا ایک ذریعہ رہا ہے، البتہ ان چند کے لئیے جن کو اس کے خیال کا معلوم تھا جو کہ خفیہ رہا ہے۔ مرکز میں اس بات کا یقین تھا کہ ظاہری اورغیبی دنیا ایک الہی ہستی کا مظہر ہے۔ عرفانی متون کے انسان کو خدائی سے مادّی دنیا کی طرف زوال کے لئیے تشویش لاحق تھی۔ آدمی میں قید کی جانے والی روشنی کی چنگاڑی کو آزاد کرانا تھا تاکہ یہ خدائی بادشاہی پر واپس آسکے۔ کہا جاتا ہے کہ عرفان و بدیہی علم کو تجرباتی علم سے زیادہ درجہ دیا گیا۔ ان کو مختلف ابتداء کی طرف سے حاصل کیا جاتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کیمیائی مرکبات کے استعمال نے صوفیانہ تجربات حاصل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہو۔
غناسیت نےبہت سے زندیق مغربی یورپی فرقوں کو متاثر کیا، جیسے کہ نصف صدی میں کاٹہارس(Kathars) ، جو کہ زبردست ستانے والے اور صوفی جیسے جیکب بوئیم(Jacob Boehme) (1575 – 1624) ۔
آٹھویں اور نویں صدی میں بغداد عربی مطالعہ کا عظیم دانشورانہ مرکز بن گیا تھا۔ قرطبہ، ہسپانیہ کے مسلمانان، اندلس امارات کے ذریعے سائنسی اور فلسفیانہ کتابیں تقسیم کردی گئیں تھیں۔ گرینادا (Granada) اور ساراگوسا (Saragossa) کی یونیورسٹیوں میں دینیات عظیم یونانی کلاسیکل کام کو عربی سے لاطینی زبان میں تراجم کئیے گئے۔
یہودی تصوّف اور کبالحہ:
ایک اور روایت جو مغربی علاقے تک پہنچی وہ یہودی تصوّف تھا۔ ان کے باطنی نظریّے میں کبالحہ (یعنی: روایت) پندرھویں صدی میں اسپین جنوبی فرانس میں یہودی، صوفیانہ حلقوں میں نمودار ہوئے۔ اس کا قدیم حصّہ، سیفر جیٹسیرا (Sefer Jetsira) ، تیسری اور چھٹّی صدی کے درمیان لکھا گیا۔
اس عقیدے کے مطابق خدا نے موسٰی کو شریّعت کے ساتھ ملا کر دوسری وحی دی۔ اس نے قانون کے خفّیہ مفہوم کی وضاحت کی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وحی ابتداء کردہ کی طرف سے صدیوں تک منتقل کی گئی۔ عبرانی صحیفوں میں مطالعہ لیبلبلائزیشن(Kabbalistic Studies) نے فلسفیانہ دین میں اور کبھی کبھار ایک طرح سے ناقابل یقین طریقے سے مذہنی جادو میں بھی ترقی حاصل کی۔
1942 میں اسپین سے یہودیوں کے انخلاء کے فوری بعد پیکو ڈیلا میرنڈولہ(Pico della Mirandola) نے فلورنس میں کبالحہ کے عیسائی ورژن کو منظور کیا اس نے کبالحہ کی سچائی کو یونانی ہتھیار کے ساتھ وابستہ کیا۔ پس ایک آمیزے کو یونانی ہرمیس ٹرسمیگسٹس (Greek Hermes Trismegistus) اور یہودی تصوّف سے منسوب کیا گیا جو موسیٰ کے بعد سے آئے تھے۔
کیمیاء گری
نام “الکیمی” عربی لفظ الکیمیاء سے لیا گیا ہے، کیم کا نام مصر کے لئیے ہے جہاں یہ عیسائی دور سے پہلے بھی عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ افسانوی یونانی ہرمیس ٹرسمیگسٹس کے جادو اور تصوّف کے ساتھ مرکّب ہے جو اس کے نام سے جاننا جاتا ہے۔
چوتھی صدی عیسوی میں، الکیمی اپنے تاریخی شکل میں نمودار ہوا۔ یہ روایت بارہویں صدی میں اسپین میں مسلمان کیمیاء دانوں کے ذریعے سے یورپ پہنچی۔
![]() |
میڈیا ایول الکیمی (Mediaeval Alchemy) عرفانی عناصر پر مشتمل ہے۔ اپنی مقبول شکل میں اسے دھاتوں کی تبدیلی کا فن سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود، یہ اس سے زیادہ گہرائی میں چلا گیا۔ اس سے مفروضہ جاری ہے کہ یہ معاملہ زندہ ہے اور بڑھ سکتا ہے۔ صحیح رسومات کے معاملے کے ساتھ ساتھ بلندوبالا صورتوں میں خاموشی سے اثر ہوسکتا ہے۔
نیم سائنسی تجربات کی آڑ میں اس کے پیشہ ور طبیب خفیہ روایت کی پیروی کرتے ہیں۔ اس طرح، اس کے صوفیانہ احساس میں الکیمی فلسفیانہ پتھر، جوکہ دھاتوں سے سونے کا انقلاب تھا، کی تلاش میں نہ تھے۔ اس کا گہرا پہلو روح کی پاکیزگی کی تلاش تھی، وہ صوفیانہ ذہنی انقلاب جو کہ علم الہٰی حاصل کرنے کے لئیے ضروری تھا۔
فرعون وسطیٰ کے زنانے میں اصلی اور جھوٹے کیمیاء گر تھے۔ ان میں ناموراورعام لوگ، پادری اور عام دنیادار آدمی، یہودی اور عیسائی، سائنسدان اور عام فنکار، فلاسفر اور جاہل، ڈاکٹر اور جادو گر، مختصراً معاشرے کے تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے شامل تھے۔ وہ یورپ کے ذریعے یہاں سے وہاں بھٹکتے رہے۔ وہ اپنے آپ کو آفاقی (Cosmopolitan) سمجھنے لگےاور ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ قریبی تعلقات رکھتے تھے۔ ان کے پاس اپنے خفیہ معاشرے تھے، جو کہ نشانات اور شناختی لفظ (password) تھے۔ یہ بنیادی طور پر ایک زبانی روایت تھی جو کان سے کان – منہ سے منہ کے لئیے تھی۔ وہ سب کچھ لکھا ہوا تھا تاکہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ اس کا تعلق صرف کیمیائی تجربات سے تھا۔
![]() |
اس کے باوجود ان پر زیادہ ظلم کئیے جارہے تھے اور ان کے فن پر خفیہ طور پر زیادہ مشق کر رہےتھے۔ اس کے باوجود بلاواسطہ طور پر اس کے خیالات کا اثر معاشرے پر پڑا۔
الکیمی کے معروف ترجمان سوئیز تھیوپہراسٹس وون ہوہینہیام (Swiss Theophrastus Bombastus von Hoenheim) جو پیراسلس (Paracelsus) (1493-1541) کہلائے۔ آئزک نیوٹن نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر، اپنی زندگی کا زیادہ تر حصّہ کیمیکل تجربات منعقد کرنے میں صرف کیا۔
حیات نو
پندرھویں اور سولہویں صدی کی حیات نو کی تحریک قرون وسطیٰ کے فلسفیانہ اور دینیات کے اندازسوچ کے طلسم سے پیدا ہوئی تھی۔ ماضی کے دور کے علم کی طرف وکالت کی جارہی تھی۔
پیراسیلس
حالانکہ حیات نو کی تحریک کو فن اور ادب کے اثرات کی وجہ سے جاننا جاتا تھا، حالیہ برسوں میں یہ محسوس کیا گیا تھا کہ اس کا مطالعہ پراسرار افلاطونیت کے پیرو اور ہیرمیٹک روایات کے ساتھ ساتھ دلچسپی سے تجدید شدہ تھا۔
1450 کے اردگرد ایک پلاٹونک اکیڈمی (Platonic Academy) فلارنس (Florence) میں قائم کی گئی۔ 1471 میں حال ہی میں دوبارہ بازیافت کی گئی ۔ یونانی کارپس ہرمیٹیکم (Corpus Hermeticum) (اوپر دیکھیں) کا لاطینی ترجمہ سامنے آیا- اس ترجمے نے یونانیوں کے ہرمیٹک فلاسفی کے تجدید شدہ دلچسپی کے بارے میں سوالات کھڑے کئیے اور بہت سے اشاعت سے گزرے۔
![]() |
قدیم مصر کے پُراسرار جادوئی مذہب، وہ قدیم تہذیب ہے جس کے پاس علم تھا، ازسرنو احیاء کے مقابلے میں زیادہ توّجہ کا حامل تھا۔ پُراسرار علاقائی زبانیں چُھپے ہوئے علم کی نشانی تصوّر کئیے جاتے تھے، جنہیں اللہ کی طرف سے آدمی پر نازل کیا گیا، جس کو لفظوں کے ذریعے منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ نشانیاں اور اشارے سچ اور اقدار کو پہنچانے کے ذرائع بن گئے۔ علم ظاہری نامیاتی اتحاد بن گیا۔ یہ روحوں کت ایک تنظیمی نظام کی طرف سے باوثوق کیا گیا تھا۔ جس میں تمام اقسام کے اثرات اور ہمدردیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جادو کی مشق ایک مقدس عمل بن گیا، عقل کے ذریعے نہیں، لیکن وحی کے ذریعے علم کی تلاش خالص ذہن کے لئیے تھا۔
فری میسن نظام
حکمت کی روایات میں تازہ دلچسپی کے اثرات نے اطالوی حیات نو کی تحریک میں فری میسن نظام کا اظہار بھی پایا، جو کہ اسکاٹ لینڈ میں 1600 کے قریب انجمن میں منظّم ہوئی۔
جدید فری نظام قرون وسطیٰ کے سنگسار سے ابھری جو ایک شہر سے دوسرے شہر چرچ یا پھر گرجا گھر بنانے کے کام کی تلاش میں رہتے، جس کے لئیے غیر معمولی مہارت، دانشوری اور تنظیمی ذہانت کی ضرورت تھی۔ ہم پیشہ لوگوں کو تیار کیا گیا تاکہ ان کے دستکاری کے راز کو پوشیدہ رکھا جاسکے۔
ماہر تعمیرات کے وقار کو، جن کے شاندار عمارت ان کے عظیم تعریف کا موضوع تھی۔ کو مزید اونچا کیا جائے۔ ہم پیشہ تنظیم کا ممبر ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا اور کمائی حاصل کرنی ہوتی تھی۔ ارکان ایک دوسرے کو ناصرف پاس ورڈ(Password) سے پہچانتے تھے، لیکن ان کے عقیدت اور فلاسفی کی وجہ سے بھی، جو نام نہاد پرانے الزامات میں رکھا گیا تھا۔ فری میسن کے ابتدائی ورژن، 1400 صدی میں واپس پہنچی۔ بعد کا ورژن سولہویں صدی میں گردش کرنے لگا۔
پرانے الزامات نے ہرمیٹک کی قدیم زمانے کے گمشدہ حکمت کی تلاش کو پابند کردیا۔ فری میسن نے اخلاق اور جیومیٹری کے مطالعے پر زور دیا۔
قدیم مصر کے علم اور استاد جو کہ کھوئے ہوئے بائیبل بادشاہ سلیمان کے کھوئے ہوئے مندر کے عظیم تعمیرات کے ڈیزائن کے پیچھے تھے، معمار، تخلیق کی ترقی کے لئیے اعلی عزّت اور حاصلہ افزائی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ اس مندر کے ماسٹر معمار ہیرام (Hiram) کو قتل کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ تعمیرات کے راز کو افشاں نہیں کر سکتے تھے، یہ حوصلہ افزائی کا ذریعہ تھا۔
مستری قدیم مصری، یونانی اور روم کے ہم پیشہ لوگوں کے عمارت کے احترام کے لئیے اپنے آپ کو بیکار محسوس کرتے تھے۔ قدیم بلڈرز کی حیرت انگیز تعمیراتی مہارت کو مافوق الفطرت طاقتوں سے منسوب کیا گیا۔ ان کے جیومیٹری اور ریاضی کے صحیفوں کو نہایت عقیدت کے ساتھ مطالعہ کیا جاتا رہا، جب وہ دستیاب ہوگئے تھے۔
ان کاریگروں کا تعلق “عملاً” فری کاریگری کی طرف سے تھا۔ بعد ازاں اعلیٰ طبقے کے ممبران کو بھی معمار رہائش (Masonic Lodges) میں داخلہ دیا گیا۔ ان کے جادوئی اور روحانی سائنس کے حصول، شاید ‘قیاسی’ سوچ کی ترقی کے ذمہ دار تھے۔
فری میسن کی اُمید، خیالات کی مزید آزادی ، سیاسی اور مذہبی اصطلاحات کے لئیے، یہ ضروری تھا کہ یہ کاروائیاں انتہائی رازداری سے منعقد کی جاتی تھیں۔ آخرکار ‘قیاسی” عنصر غائب ہوگیا۔
اسکاٹ لینڈ کے ولیم شیوو (William Schaw) (1550-1602) کو کاریگر تنظیم کو دوبارہ بنانے والا ذہن تصوّر کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں ایلیاس اہمول (Elias Ahmole) (1617-1692) آگے آنے تھے۔ اس نجومی کی ڈائری میں 1646 میں فری میسن میں ان کی ابتداء کا ریکارڈ موجود ہے، جو پہلے ہی سے کئی ممبرز کی گنتی کر چکا ہے، ان میں سے کوئی اس وقت پتھر تراش کاری گر پیشے میں نہیں تھے۔
روسی کروشی
ان روایات سے وابستہ روسی کروشی کی تحریک ہے جو کہ سترہویں صدی میں نمودار ہوئی۔ ان کو جدید روسی کروشی گروپوں کے ساتھ سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیئے، جس کا قدیم تحریک سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔
![]() |
ان کے قیام کی بنیاد پر ایک کتابچہ 1614 میں شائع ہوا، جس کا نام فاما (Fama) (تصویر دیکھیں) تھا، (روسی کراس کے مہذب برادری کا) جو کہ عام اور یورپ کے گورنروں سے خطاب سے سیکھا۔ اس کے مصنّف شاید جوہان ویلنٹائن اینڈریا (Johann Valentin Andrea 1586 – 1654) تھے، جو کہ ایک نوجوان جرمن لوٹھرن پادری تھا۔ اس نے طے شدہ پیغام کو جو کہ کچھ ‘اطلاق’ سے انسانیت کے حالات سے متعلق تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کا منبع مایوس لوتھران کے بھائی چارگی پر تھا جو کہ سینکڑوں سال کے اصلاح کے نتائج سے مطمئن نہیں تھے۔
فاما(Fama) میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ دُنیا بھر کے تمام قابل اشخاص سائنس کی ترکیب کے قیام کے لئیے افواج میں شمولیت اختیار کریں ۔ اس کوشش کے پیچھے مبینہ طور پر واضح بھائی چارہ کھڑا تھا ـــ روشنی کے بچّے، جو کہ گرینڈ آرڈر کے اسرار میں شروع کیا گیا تھا اس بروڈرز شیفٹ ڈیرتھیوسوفین (Bruderschaft der Theosophen) کو عیسائی روسنکریوٹز (Rosencreutz 1378-1484) نے قائم کیا تھا ، جو کہ پندرھویں صدی عیسوی میں مشرق وسطیٰ میں ان کے سفر کے دوران شروع ہوا تھا۔ انہوں نے ایک ایسے بھائی چارے کی بنیاد رکھی جو پہلے ہی سے خفیہ طور پر کام کر رہی تھی۔
روزی کراس کے آرڈر کے پمفلٹس شاید ہرمیٹک (Hermatic) اور نیو پلاٹونک (Neo Platonic) صحابہ سے متاثر ہوئے تھے جا اس وقت گردش میں تھے۔ فیری کوئن آف نیو پلاٹونسٹ ایڈمنڈ اسپنسر(Faerie Queene of Neoplatonist Edmund Spencer) جو 1590 میں شائع ہوا انگریزی شورویروں (English Knight) ‘ریڈ کراس’ کے لئیے خدشات تھے۔ روسی کروشین فلاسفی میں وہ عناصر بھی شامل تھے جو فری میسنری (Freemasonry) اور کیمیاء گر (Alchemist) کی تحریروں میں بھی موجود تھے جیسے کہ تصوّر: ‘جو اوپر، وہی ذیل میں’ ــ اشارہ کرتا ہے کہ انسان پوری کائنات کا عکس رکھتا ہے۔ دیگر نظریات ان لوگوں کے جسے کہ عظیم کیمیاء گر پاراسلسس (Paracelsus) کے یاد کے طور پر تازہ رہے گا۔ (تصویر دیکھیں)
روسی کروشین کے منشور نے یورپی حلقوں میں کافی ہلچل پیدا کی۔ حالانکہ بہت سے شروعات کرنے کے لئیے لاگو کئیے گئے۔ یہاں کوئی لمبے بھائی چارے کے ریکارڈ موجود نہیں۔ 1623 تک جرمن روسی کروشین تحریک انسداد اصلاح کے وزن تلے ختم ہوگئی جو کہ ریاکار اشخاص کی قیادت میں ہوئی تھی۔ پراسرار حیات نو ختم ہوچکا تھا ــ ڈائن شکار کی لہر شروع ہو گئی تھی۔
روشن ضمیری کا دور
بنیاد پرست عیسائیت کی گرفت آنے والی دہائیوں کے دوران کمزور پڑگئی تھی۔ یورپی آدمی کا فلسفہ کائنات کبھی بہت وسع تھا۔ دنیا کے سمندر کو دریافت کیا جارہا تھا اور دیگر ثقافتوں کے ساتھ رابطے بنائے جا رہے تھے۔ ایک وسیع بڑھتی ہوئی آبادی اور زیادہ مطالباتی معاشرہ اختراعی مہارت کے لئیے بلایا جارہا تھا۔ یورپی تہذیب کا صفایا ہو گیا تھا۔ ذہین شخص نے اپنی ثقافت میں حصّہ لیا۔ ایک ذہین دماغ کے ساتھ فطرت کی تلاش ایک نیت تعاقب بن گیا۔ اینا ماریا سچورمین (Anna Maria Schuurman 1607 – 1678) پہلی خاتون بنیں جس نے تعلیم کو قبول کیا۔ ایک نئی طرح کی فلاسفی اُبھری جو کہ قرون وسطیٰ کے مذہبی علماء کے عیسائی دنیا الگ تھی۔
روشن ضمیری کے دور کو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ 1687 میں آئزک نیوٹن کی اشاعت سے شروع ہوئی؛ فلوسفیا نیچرلس پرنسیپیا میتھمیٹیشیا (Mathematical Principles of Natural philosophy) ۔ یہ ایک مقصد کے انداز میں فطرت کی تلاش کی بنیاد تھی۔ بہترین دماغ نے خود کو اس اہم تعاقب کے لئیے وقف کردیا۔ گیللی (Galilei) ، رابرٹ بوئل (Robert Boyle) ، رینی ڈسکارٹس (Renne Descartes) ، فرانسس بیکن (Francis Bacon) ، ڈیڈیروٹ(Diderot) نے 1751 میں ان کے مشہور انسائیکلوپیڈیا کی اشاعت اقساط میں شروع کردی۔ الکیمی کو اب تک سائنسی کھوج لگانے والا سمجھا جاتا تھا اور ان کو انسائیکلوپیڈیا میں کافی مناسب شرائط میں بیان کیا جاتا رہا۔
آزادی کے تصوّر کا نظریہ سامنے آیا۔ ہالینڈ نے اپنے آزاد مذہبی نقطہء نظر کے لئیے بہت سے ستائے ہوئے یہودی، ہوگوانوٹ اور دیگر مہاجرین کو اپنی طرف متوجّہ کیا۔ ایمسٹرڈیم میں بائیبل کے وظائف میں حصّہ لیا۔ پہلی بار اہم نوٹوں کو بائیبل کے اہم متن کے پیچھے رکھا گیا تھا۔ اٹھارویں صدی میں، بائیبل کو بے نقاب کرنے نے، ان کا مقدّس معمّہ کے طور پر عام جگہ بنائی۔ تنقیدی حقانیت پر حملہ ہوا اور عیسائیت میں روایتی درجہ بندی کے معیار کو گرا دیا۔ والٹائیر (Voltaire) ، روزیاوؤ (Rousseau) ، تھامیس جیفرسن (Thomas Jefferson) اور بینجمن فرانکلین (Benjamin Franklin) کی باطنی روایت میں درجہ بندی کی گئی جو کہ خوف سے کم تھا۔
تنویم اور فرانسیسی انقلاب
اٹھارہویں صدی کے اواخر میں نئی سائنسی دریافتوں اور ایجادات نے عوام کے ذہن پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس کی شاندار خصوصیات کی وضاحت کرنے کے لئیے بجلی کے ساتھ خاص طور پر فلوادم، ایتھر یا فیلوگیسٹن نے شامل ہوکر سب سے زیادہ حیرت انگیز اور عجیب نظریات کو ایندھن دیا۔ یہ آج کل عام طور پر اس دور کے عظیم ذہنوں پر پردہ ڈال دیا، جیسے نیوٹن، جو زندیق تصّورات میں یقین رکھتے تھے کہ آج کل تعلیمی کمیونٹی بھی ان سائنسدانوں کو بھول جاتی ہے جن کو جلا وطن کیا گیا تھا۔
![]() |
اٹھارہویں صدی کے دہائی میں آسٹریا کی روح کے معالج، فرانزانتون میسمر(Franz Anton Mesmer 1733-1815) نے، ایک بہت بڑا اثر نہ صرف فرانس کے اعلیٰ طبقے بلکہ عام عوام کو بھی پیش کیا۔ فرانسیسی انقلاب کے پھیلاؤ کے دس سال قبل ان کے خیالات نے نظریہء تخیّل پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس نے اپنی شفایابی کے طاقت کو ایک فلیودم کے ساتھ ملایا: جانوروں کی کشش ــ انہوں نے پھر ریاستوں کے ساتھ گرویدہ کرنے والے انداز سے کام کیا جو کہ سمنمبیولز (Somnambules) کہلائے۔ ان کے روحانیت کو عام طور پر تسلیم کیا گیا سوائے سائنسی برادری کے ارکان کے جو ہمیشہ سے جنگ میں تھے۔
دیگر خفیہ روحانی بھائی چارے جیسے فری میسنری، قدیم صوفیانہ تنظیم، کبالحہ، سوئڈینبرگ اور الکیمی میں اضافہ ہوا، جیسے کہ روحانیت میں۔ شفایابی کے پہلوؤں کے پس منظر میں، مرحومین کی روحوں سے بات چیت کرنا، جادوئی اشارات کے ساتھ کام کرنا اور حقیقت کے نئے نقطہء نظر کی تعمیراس کی جگہ پر آگیا۔
خیالات کی یہ اڑان، قائم کردہ آرڈر تنازعہ اور اشرافیہ کے ساتھ فرانسیسی انقلاب کے لئیے زرخیز زمین بن گیا۔ اس کے بعض لیڈر ایک بار پھر تنویّم کی دُنیا کے عمودی ڈھلان پر تھے۔
پہلے حصّہ کا اختتام