اصل آرٹیکل: http://crab.rutgers.edu/~goertzel/mythsofmurder.htm
قتل کے متعلق فرضی داستانیں اور ملٹی پل ریگریشن
ٹیڈ جارٹزل
روٹجرز یونیورسٹی ،کیمڈن این۔جے،08102
کیا آپ یقین کریں گے جب امریکہ میں کسی مجرم کو پھانسی دی جاتی ہے ، مستقبل میں ہونے والے آٹھ قتل ٹال دیے جاتے ہیں؟ کیا آپ یقین کریں گے کہ شہریوں، جن کو ہتھیار رکھنے کا لائسنس دیا گیا ہے ، میں %1 اضافے سے قتل کی شرح %3 گر جاتی ہے؟ کیا آپ یقین کریں گے کہ 1990 کی دہائی میں جرائم میں دس سے بیس فیصد کمی، 1970 کی دہائی میں اسقاطِ حمل میں اضافے کے باعث ہوئی؟ یاامریکہ میں اتنے زیادہ جیل خانےتعمیر نہ کرنے کی صورت میں ، جرائم میں 1974 سے 25 فیصد اضافہ ہو گیا ہوتا۔
اگر آپ ان میں سے کسی بھی حقا ئق سے گمراہ کیے جا چکے ہیں تو آپ خرا ب سائنس کی ایک مہلک قسم کا شکار ہو گئے ہیں: پیشن گوئی کی صلاحیت کے بغیر ریاضی ماڈلز کے استعمال سے پالیسی نتائج اخذ کرنا۔ سطحی طور پر یہ مطا لعے بہت متاثر کن معلوم ہوتے ہیں۔ اعلیٰ درجے کی شہرت رکھنے والے اداروں کے مشہور سماجی سائنسدانوں سے لکھے گئے یہ حقا ئق، اکثر دوسرے سائنسدا نوں سے نظر ثا نی کیے گئے سائنٹفک جر نلز میں شائع کیے جاتے ہیں۔
اعدادو شمار کے پیچیدہ حساب سے بھرے یہ مطالعے ، اکثر بالکل درست حسابی “حقائق” دیتے ہیں، جن کو پالیسی بحث پر بحث کرنے والے دلیل کے طور پر استعمال کر تے ہیں۔ اپنی سائنسی شکل کے باوجود یہ ماڈلز، کارآمد حسابی ماڈلز کے بنیادی معیار پر پورا نہیں اترتے : یعنی پیشن گوئی کر نے کی صلاحیت جو کہ بے تر تیب اتفاق سے بہتر ہو۔
اگر چہ اس مبہم فن کا استعمال زیادہ تر اکانومسٹ کرتے ہیں، سوشیالوجسٹ ، کرمنالوجسٹ اور دوسرے سماجی سائنسدان بھی اس کے دوسرے ورژن کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کو مختلف ناموں مثلاً “اکانومیڑک ماڈلنگ “، ” سٹر کچر ایکویشن ماڈلنگ” اور ” پاتھ اینا لسز ” سے جانا جاتا ہے۔ ان تمام کا مقصد تغیر پذیر اشیاء میں تعلق کو تلاش کر کے مفہوم بیان کرنا ہے۔ شماریات میں تعلیم حاصل کیے ہر شخص کو معلوم ہوگا ، اس میں مسئلہ یہ ہے کہ باہمی تعلق ،وجہ نہیں ہوتی۔ دو مختلف تغیر پذیر اشیاء میں باہمی تعلق “نقلی” ہو تا ہے کیونکہ یہ تغیر پذیر ی کسی تیسری شے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اکانومیٹرک ماڈلز اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے اپنے تجزیے میں تمام تغیر پذیر اشیاء کو شامل کرتے ہیں۔ ایسا ایک طریقہ جسے “ملٹی پل ریگریشن ” کہا جاتا ہے۔ یہ تمام تغیر پذیر اشیاء کے مکمل اعدادو شمار ہونے کی صورت میں کام کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے پاس کبھی مکمل ڈیٹا نہیں ہوتا۔ پبلک پالیسی کے سوالات کے جوابات کے لیے “ملٹی پل ریگریشن ” بار بار استعمال کرنے کے باوجود ناکامی کا سامناہے۔
لیکن بہت سے سماجی سائنسدان شکست تسلیم نہیں کرتے ۔انہوں نے ملٹی پل ریگریشن کو پڑھنے اور پڑھانے میں سالوں صرف کیے ہوتے ہیں۔ اور وہ اسے استعما ل کرتے ہوئے بے قاعدہ دلائل دیتے رہتے ہیں جو ان کے ڈیٹا سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہم ان دلائل کو ملٹی پل ریگریشن کی فرضی حکایات کہتے ہیں اور ہم یہاں چا ر مثالیں استعمال کر کے اسے بیان کریں گے۔
فرضی داستان نمبر ایک: زیادہ ہتھیار کم جرائم
جان لوٹ جو کہ ییل یونیورسٹی میں اکانومسٹ تھے ، نے اکانو میٹرک ماڈل کے استعمال سے یہ تصّور دیا کہ ” شہریوں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت دینا، اتفاقی حادثات میں اضافے کے بغیر جرائم میں کمی کا باعث بنتا ہے”۔ لوٹ کے تجزیے میں “شیل لا ء” شامل ہے جس کی رو سے مقامی انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر اُس شہری کو جو قانون کی پاسداری کر تا ہے، طلب کرنے پر ہتھیار رکھنے کا لائسنس دیں۔ لوٹ کے اندازے کے مطابق ہر %1 اضافہ جرائم کی %3 کمی کا باعث بنتا ہے۔ لوٹ اور ڈیوڈ مسٹرڈ نے یہ مطالعہ 1997 میں انٹر نیٹ پر شائع کیا اور اسے لاکھوں لوگوں نے ڈاؤن لوڈ کیا۔ یہ پالیسی فارمز ،اخبارات کے کالم اور انٹر نیٹ پر اعلیٰ سطح کی گفتگو کا مرکز رہا۔ ایک چمکتے دھمکتے عنوان والی کتا ب مور گنز، لیس کرائم ،میں لوٹ نے اپنے ناقدین کو سائنس سے زیادہ نظریات کو اہمیت دینے پر ملامت کا نشانہ بنایاہے۔ لوٹ کا کام شماریاتی آمریت کی ایک مثال ہے۔ اس کے پاس اس عنوان کے مطالعے کرنے والے دوسرے لوگوں سے زیادہ ڈیٹا اور پیچیدہ تجزیات تھے۔ اس کا مطالبہ تھا کہ اس کے کام سے مخالفت کرنے والے ایک بہت پیچیدہ گفتگو کا حصّہ بنیں، یہ گفتگو اتنے پیچیدہ حسابات پر مشتمل تھی کہ اس کو پراسس کرنا عام کمپیوٹر کے بس سے باہر تھا۔ اس کا مطالبہ تھا کہ اس سے اختلاف کرنے والے یہ ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کریں اور دوبارہ حساب کریں۔ لیکن زیادہ تر سماجی سائنسدانوں کا خیال تھا کہ حساب ناکام ہوجانے وا لے ماڈلز کو دوبارہ استعمال کر کے دوبارہ حساب کرنا وقت ضائع کرنے کے متراد ف ہے۔ ہتھیاروں پر ریسرچ کرنے والے سائنسدانوں نے لوٹ کی ریسرچ کو مسترد کر دیا اور اپنی ریسرچ میں مصروف ہوگئے۔ کرمنل جسٹس پر ریسرچ کرنے والے دو نامور سائنسدان ، فرینک زم رنگ اور گو رڈن ہاکنگز(1997) نے ایک آرٹیکل میں اسکی وضاحت ایسے کی ہے: جیسا کہ لوٹ اور مسٹرڈ نے جرائم کے ایک ماڈل کو استعمال کرتے ہوئے ، شماریات پر مشتمل یہ نتیجہ نکالا ہے کہ “شیل لاء” جرائم میں کمی کا باعث ہے ، ہم توقع رکھتے ہیں کہ دوسرے سائنسدان اسی تاریخی وقت میں اسی ڈیٹا کو دوسرے ماڈلز سے استعمال کر کے مختلف نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ اکانومیٹرک ماڈلنگ کسی بھی خیال سے تعلق رکھنے والے ا فراد کی خوشی کے لیے شماریات مہیا کر نے کے لیے دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔
زم زنگ اور ہاکنگ صحیح تھے۔ ایک سال کے اندر دو حو صلہ مند سائنسدانوں ، ڈان بلیک اور دانیل ناگن (1998) نے یہ ریسرچ شائع کی کہ اسی ڈیٹا کو استعمال کر کے جب مختلف ماڈل اپلائی کیے گئے تو مختلف نتائج نکلے۔ بلیک اور ناگن نے یہ مشاہدہ کیا کہ جب سیمپل ڈیٹا میں سے فلوریڈا کو نکال دیا گیا تو ہتھیار رکھنے کی اجازت کے قانون نے جرائم کی شرح کو متاثر نہ کیا۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ” لوٹ اور مسٹرڈ کے نتائج نامناسب ہیں اور ان کو پبلک پالیسی کی تشکیل کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا”
تاہم جان لوٹ نے ان نتائج سے اختلاف کیا اور اپنی ریسرچ کی تشہیر کرتا رہا۔ لو ٹ نے امریکہ کی تمام کاؤنٹیز کا 1977 سے 1992 تک کا ڈیٹا اکھٹا کیا۔ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کی کاؤنٹیز رقبے اور سماجی لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ کچھ بڑی کاؤنٹیز جو کہ بڑے شہروں پر مشتمل ہیں ، میں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے ۔ اور ان بڑی کاؤنٹیز میں سے کسی میں بھی “شیل لاء” لاگونہ تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ لوٹ کا بہت بڑا ڈیٹا اس کام کے لیے صحیح نہ تھا۔ بہت زیادہ جرائم والی جگہوں میں ، تغیرپذیر شے “شیل لاء” کا کوئی متبادل موجود نہ تھا۔
ا س نے اس مسئلے کا اپنی کتا ب یا آر ٹیکل میں ذکر نہ کیا۔ جب میں نے اس کے ڈیٹا کے خود اپنے معائنے میں شیل لاء کی غیر موجودگی کو دریافت کیا تو میں نے اُس سے اِس بارےمیں سوال کیا۔ وہ اس سوال کو یہ کہتے ہوئے ٹال گیا کہ اس نے آبادی کی شرح کو اپنے تجزیے میں “کنٹرول ” کیا ہے۔
لیکن حسابی تجزیے میں شماریاتی کنٹرول ، بڑے شہروں میں جہاں سب سے زیادہ جرائم تھے کا ڈیٹا موجود ہی نہ ہونے کا متبادل نہیں ہو سکتے۔
کیو نکہ میں ہتھیا ر کے کنٹرول سے واقف نہیں تھا تو مجھے اس کمی کو ڈھونڈنے میں کچھ وقت لگا۔ لیکن زم زنگ اور ہاکنگز نے فوراً اس کا اظہار اس وجہ سے کیا کہ وہ جانتے تھے کہ شیل لاء ان ریاستوں میں لاگو تھا جہاں نیشنل رائفل ایسوسی ایشن مضبوط ہے ،یعنی زیادہ تر شمالی اور مغربی اور دیہی علاقوں میں۔ یہ ایسے علاقے تھے جہاں ہتھیار وں پر پہلے ہی روک ٹوک کم تھی۔
انہوں نے مشاہد ہ کیا کہ یہ قانونی تاریخ ،شیل لاء والے علاقوں اور جن علاقوں میں شیل لاء نہ تھا، میں ر جحا نات میں فرق کرنے میں آڑ ہے۔ کیونکہ جن علاقوں نے قوانین کو تبدیل کیا ، ان علاقوں سے جنہوں نے تبدیل نہ کیا سے مختلف تھے۔ مختلف قانونی کیٹا گریز میں موازنہ ، مختلف قانونی نظامِ حکومت کے رویے پر اثرات کو مقامی اور علاقائی اثرو رسوخ سمجھا جانے کا باعث بن سکتا ہے۔ زم زنگ اور ہاکنگ نے مزید مشاہدہ کیا:
بلا شبہ لوٹ اور مسٹرڈ اس مسئلے سے واقف تھے۔ ان کا حل ، ایک عام اکانومیٹرک طریقہ ، آئی ڈہو سے نیو یارک تک ایک ایسے شماریاتی ماڈل کی تخلیق تھا جو شیل لاء کے علاوہ ان تمام مختلف اشیاء کو کنٹرول کرے گا جو جرائم پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ان اثرانداز ہونے والی چیزوں کی نشاند ہی کر سکے تو ہم مختلف رجحانات سے اسے ختم کر سکتے ہیں۔ لوٹ اور مسٹرڈ نے ایسے ماڈل بنائے جو مختلف جرائم پر علاقائی ڈیٹا کے ، معاشی ڈیٹا کے اور جرائم کی سزا کے اثرات کا اندازہ لگا تا تھے ۔ یہ ماڈلز گھر میں شماری کھانا پکانے جیسے ہیں کیونکہ مصنفین نے یہ ماڈلز صرف ان ڈیٹا سیٹ کے لیے بنائے ہیں جن میں ہتھیار
رکھنے کے اثر کا جائزہ لیا جائے گا۔
لوٹ اور مسٹر ڈ ، آئی ڈہو ، ویسٹ ور جینیا اور مسی سپّی کے رجحانات کا نیو یارک کے رجحا نات کے ساتھ موازنہ کر رہے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ 1980 اور 1990 کی د ہائی میں مشرقی علاقوں میں منشیات سے متعلق جرائم کی شرح بہت زیادہ تھی۔ لوٹ کے تمام د لائل کا نچوڑ یہ تھا کہ دیہاتی علاقوں اور مغر بی علاقوں جہاں ” شیل لاء “لاگو تھا، منشیات سے متعلق جرائم سے، صرف اس قا نون کی وجہ سے بچے۔ اس دلیل کو کبھی سنجیدگی سے نہ لیا جاتا اگر یہ پیچیدہ حسابات کی بھول بھلیاں میں نہ چھپے ہوتے۔
فرضی داستان نمبر 2: زیادہ لوگوں کو جیل میں ڈالنا جرائم میں کمی کا باعث ہوتا ہے
لوٹ اور مسٹرڈ کا معاملہ صرف لوگوں کی تو جّہ حاصل کرنے کے لحاظ سے غیر معمولی تھا وگرنہ ،یہ مخالف سائنسدانوں کا مختلف ماڈلز استعمال کر کے مختلف نتیجوں پر پہنچا نا بہت عام ہے۔ اکثر ان تجزیوں میں دکھانے کے قابل کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ وہ صرف مختلف ڈیٹا یا مختلف طریقے استعما ل کرکے مختلف نتائج پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریگریشن کے ماڈلز ریگریشن کے تجزیے کے اصولوں کو توڑے بغیر کوئی بھی نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں۔
ان معاملات کی پریشانیوں سے متعلق ایک بے جھجک بیان میں ، دو مشہور کرمنالوجسٹ تھامس مارول اور کاریسل مودی (1997:221) نے قید کی سزاؤں کا جرائم کی شرح پر اثر ،پر اپنی ریسرچ کی قبولی کو بیان کیا۔ انہوں نے رپورٹ کیا کہ انہوں نے :
اپنے نتائج اور استعما ل کیے گئے ڈیٹا کو ہم منصب لوگوں میں، جو مقداری تجزیے میں مہارت رکھتے تھے، تشہیر کی۔ سب سے عام رد عمل یہ تھا کہ وہ نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر تے تھے ،چاہے شماریاتی تجزیہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو۔ اس اختلاف کی وجہ یہ خیال ہے جو عام طور پر گفتگو میں تو استعمال ہوتا ہے مگر کبھی شائع نہیں کیا جاتا ؛ سماجی سائنسدان تجزیے کے طریقوں کو بدل کر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ درحقیقت جیلوں کی آبادی کے اثرات سے متعلق بہت سے اندازوں کو ریسرچ کی کمزوری کے ثبوت کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ حتی کہ ان لوگوں میں بھی جو باقاعدگی سے مقداری ریسرچ کو شائع کرتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ چاہے تجزیہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، نتائج کو تب تک تسلیم نہ کیا جائے گا جب تک وہ توقعات کے مطابق نہ ہوں۔ ریسرچ اس طرح کے ماحول میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ بات قابلِ تحسِین ہے کہ مارول اور مودی نے ملٹی پل ریگریشن کے ا ن مسائل کو قبول کیا اور اس میں بہتری کے لیے تجاویز بھی دیں۔ بد قسمتی سے کچھ اکانومسٹ اپنے ماڈلز میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ وہ ان کی بے قاعدگی کو بھول جاتے ہیں۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے ماڈلز اس اُلجھی ، ضدی اور “بے قاعدہ ” حقیقت سے زیادہ اصل اور جائز ہیں، جس کو وہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فرضی داستان نمبر 3: سزائے موت جرائم میں کمی کا باعث ہے
1975 میں امریکن اکانو مک ری ویو میں یونیورسٹی آف مِشی گن کے ایک مشہور اکانومسٹ آئی زِک ایلرِچ کی طرف سے ایک آرٹیکل شائع کیا گیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ایک سزائے موت آٹھ جرائم میں کمی کاباعث بنتی ہے۔ ایلرِچ سے پہلے سزائے موت کی اثر مندی پر ماہر، تھور سٹن سیلن تھے جنہوں نے تجزیے کے سادہ طریقے استعمال کیے۔ سیلن نے مختلف علاقوں میں رجحانات کا موازنہ کرنے کے لیے گراف بنائے۔ انہوں نے سزائے موت والے علاقوں اور بغیر سزائے موت کے علاقوں میں کوئی فرق نہ پایا۔ چنا چہ انہوں نے ا خذکیا کہ سزائے موت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایلرِچ نے شماریاتی آمریت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کے تجزیے حقیقت سے قریب تر ہیں کیونکہ انہوں نے قتل کی شرح پر اثر انداز ہونے والے تمام عوامل کو شامل کیا ہے۔ اس ریسرچ کے شائع ہونے سے پہلے ہی اسے سولسٹر جنرل آف یو نائٹیڈ سٹیٹس نے سپریم کورٹ میں سزائے موت کا دفاع کر تے ہوئے پیش کیا۔ خوش قسمتی سے کورٹ نے ایلرچ کی ریسرچ پر انحصار کر نے سے انکار کر دیا کیونکہ دوسرے سائنسدانوں نے اس کی تصدیق نہ کی تھی۔ یہ صحیح فیصلہ تھا کیونکہ ایک یا دو سال کے اندر دوسرے لوگوں نے اعلیٰ اکانومیڑک تجزیے استعمال کر تے ہوئے اخذ کیا کہ سزائے موت جرائم کی شرح کو متاثر نہیں کرتی۔
ایلرِچ کی ریسرچ پر اختلاف اتنا اہم تھا کہ نیشنل ریسرچ کونسل نے اس کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین کی کمیٹی بنا دی ۔کافی گہرے جائزے کے بعد کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ مسئلہ ایلرِچ کے ماڈل کے ساتھ نہیں ہے بلکہ مسئلہ کرمنل جسٹس پالیسز پراختلاف کو حل کرنے کے لیے اکانومیڑک ماڈلز کا استعمال ہے ۔انہوں (مان سکی،1978:42) نے اخذ کیا:
کیو نکہ ایسے تجزیوں کے لیے موجود ڈیٹا محدود ہے اور مجرمانہ رویہ بہت پیچیدہ ہوتا ہے، ایک ایسی کرداری ریسرچ کی جو کہ بچاؤ کی پالیسیز کے تما م اختلافات کو دور کر دے، توقع نہیں کر نی چاہیے۔
زیادہ تر ماہرین سمجھتے ہیں کہ سیلن صحیح تھا اور سزائے موت کا قتل کی شرح پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ چنانچہ ایلرِ چ کی پیروی نہیں کی گئی اور اپنے ماڈلز کی درستگی پر اکیلا ہی یقین رکھتا رہا ۔ ایک انٹر ویو میں ( بو نر اینڈ فیسن ڈرن ، 2000) میں اس نے زور دیا ہے ” اگر بے روزگاری ، آمد ن میں تفریق ، پکڑے جانے کے امکان اور سزائے موت لاگو کرنے جیسے عوامل کو ذہن میں رکھا جائے تو سزائے موت جرائم میں کمی کا باعث ہو سکتی ہے۔
فرضی داستان نمبر 4: 1990 کی دہائی میں اسقاطِ حمل کے قانونی ہوجانے نے جرائم کو کم کیا
1999 میں جان ڈونو ہو اور سٹیون لیوٹ نے 1990 میں قتل کے جرائم کے کم ہونے کی افسانوی تشریح کرتی ایک ریسرچ شائع کی۔ انہوں نے دلیل دی کہ 1973 میں سپریم کورٹ کی جانب سے اسقاطِ حمل قانونی بنا دیےجانے نے ان بچوں میں، جنہوں نے بڑا ہو کر مجر م بننا تھا ،کمی کر کے جرائم کی شرح میں کمی کی۔ اس دلیل کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ اسقاطِ حمل کا قانونی بننا ایک مرتبہ ہونے
والا تاریخی واقعہ ہے اور صرف ایک بار ہونے والے واقعات ریگریژن تجزیے کے لیے مطلوب ڈیٹا مہیا نہیں کرتے۔ یہ درست ہے کہ اسقاطِ حمل کچھ ریاستوں میں دوسروں سے پہلے قانونی ہوگیا اور ڈونو ہو اور لیوٹ نے اس حقیقت کا استعمال بھی کیا ہے۔ لیکن اس وقت تمام ریاستیں ایک تاریخی عمل سے گزر رہی تھیں اور ا س وقت کئی اور بھی عوامل تھے جنہوں نے قتل کی شرح کو اثرانداز کیا۔ ایک مناسب تجزیے کے لیے ان تما م عوامل کو اکٹھا کرنا اور اس کو پرکھنا ضرور ی ہے۔ موجودہ ڈیٹا اس چیز کی اجازت نہیں دیتا، چنا چہ تجزیے کے نتائج کا دارومدار ڈیٹا کے انتخاب پر ہے۔ یہاں ڈونو ہو اور لیوٹ نے 12 سال کے عرصے پر مشتمل تبدیلیوں پر غور کیا اور ان سالوں میں ردوبدل کو نظر انداز کر دیا۔ ایسا کر کے ،جیسا کہ جیمز فوکس (2000:303) نے بیان کیا ہے، انہوں نے ” اس وقت میں جرائم میں تبدیلی کو نظر انداز کردیا۔ 1980 کی دہائی میں منشیات کی وجہ سے جرائم میں اضافہ اور بعد کے سالوں میں جرائم میں کمی۔ یہ ایسے ہے کہ چاند کا سمندر پر اثر کا مطالعہ کیا جائے اور صرف نچلی لہروں کے ڈیٹا کو اکٹھا کیا جائے ۔ جب میں یہ آرٹیکل لکھ رہا تھا تو میں نے ایک فقرہ شامل کیا” جلد ہی ایک دوسرا تجزیہ کار اسی ڈیٹا کو استعمال کر تے ہوئے مختلف نتیجے پر پہنچ جائے گا”۔
کچھ دنوں بعد میری بیوی نے مجھے اخبار دیا جس میں کچھ ایسی ہی ریسرچ شائع ہوئی تھی۔ مصنف کوئی اور نہیں بلکہ خود جان لوٹ تھےاور یونیورسٹی آف ایڈی لڈ کے جان وائٹلی کے سا تھ ملکر انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ” اسقاطِ حمل کے قانونی ہوجانے نے قتل کے جرائم کو 0.5 سے 7 فیصد تک بڑھا دیا(لوٹ اینڈ وائٹلی 2001)
اتنے بڑے فرق کی کیا وجہ ہے؟ ہر مصنف نے محدود ڈیٹا کو استعمال کرنے کےلیے مختلف طریقہ اپنایا۔ اکانومسٹ اسقاطِ حمل کے قانونی کیے جانے کے تاریخی واقعے سے یہ اصول وضع نہیں کر سکتے کہ اسقاطِ حمل کا 1970 میں قانونی کیا جانا 90 کی دہائی میں جرائم میں کمی کا باعث بنا۔ درست شماریاتی تجزیے کےلیے ہمیں کم از کم ایک درجن ایسے واقعات چاہیے۔
نتیجہ
شماریاتی ماڈلز کی کامیابی کا انحصار پیشن گوئی پر ہوتا ہے۔ پیشن گوئی کا مل نہیں ہوتی۔ اگر ایک ماڈل بے قاعدہ تر تیب سے بہتر پیشن گوئی کر سکے تو ہی وہ قابلِ استعمال ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک ماڈل سٹاک کی قیمتوں کا ،بے قاعدہ پیشن گوئی سے بہتر تعین کر سکے تو وہ اپنے مالک کو امیر بنا سکتا ہے۔ اسی لیے سٹاک کی قیمتوں کے ماڈل بنانے میں کافی وقت صرف کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ریسرچرز جو کہ سماجی پالیسیز کو پرکھنے کے لیے اکانو میٹرک طریقوں کا استعمال کر تے ہیں، اپنےماڈلز کو پیشن گوئی والے ٹیسٹوں پر بہت کم پرکھتے ہیں ۔ ان کا بہانہ یہ ہو تا ہے کہ نتیجے کو جاننے کے لیے لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ آپ سٹاک کی قیمت کی طرح ہر منٹ افلاس، اسقاطِ حمل اور جرائم پر نیا ڈیٹا حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن ریسرچرز پیشن گوئی کی جانچ دوسرے طریقوں سے کر سکتے ہیں۔
وہ ایک علاقے کے کسی وقت کے ڈیٹا کو استعمال کر کے ماڈل بنا سکتے ہیں اور اسے استعما ل کرتے ہوئے کسی دوسرے علاقے کے نتائج کی پیشن گوئی کر سکتے ہیں۔ لیکن اکثر ریسرچرز ایسا نہیں کر تے اور اگر وہ کریں اور ان کے ماڈلز ناکام رہیں تو وہ نتائج شائع نہیں کرتے۔
جن اخبارات میں پبلک پالیسی سے متعلق اکانومیٹرک ریسرچ شائع ہوتی ہے وہ پری ڈکٹو ٹیسٹنگ کا مطالبہ نہیں کرتے۔ اس سے معلو م ہوتا ہے کہ ان کے ا یڈیٹرز اور پڑھنے والے زیادہ توقعات نہیں رکھتے۔ چنا چہ ریسرچرز کسی وقت میں سے ڈیٹا کو اکٹھا کر تے ہیں اور اس میں اس وقت تک تبدیلی کر تے رہتے ہیں جب تک وہ ان رجحانات کو جو پہلے ہی واقع ہو چکے ہیں “واضح” نہ کر دے۔ ایساکرنے کے کئی طریقے ہیں اور جدید کمپیوٹر ز نے اس عمل کو آسان بنا دیا ہے۔ چنا چہ ریسرچراپنی ریسرچ لکھتا ہے اور شائع ہونے بھیج دیتا ہے۔ بعد میں کوئی دوسرا ریسرچر اسی ڈیٹا کو استعمال کر تے ہوئے ، کوئی اور نتیجہ اخذ کر سکتا ہے۔ اس سے صفحات تو بھر تے رہتے ہیں، مگر سائنسی ترقی نہ ہونے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہم قتل کی شرح کے درست اکانو میٹرک ماڈل سے اتنا ہی دور ہیں جتنا ایلرِچ 1975 میں تھے۔
سائنسدانوں کے پاس ریسرچ کے نا کام طریقوں کو تسلیم کرنے کاکوئی میکا نیزم نہیں ہے۔ ایسے ماڈلز جن کو گریجویٹ میں پڑھایا جاتا ہے اور جو بڑے سائنسی اخبارات میں ریسرچ کے شائع ہونے کا سبب ہوتے ہیں ، اکثر نامکمل ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اگر کسی بڑے اخبار میں کوئی ریسرچ شائع ہوئی ہے تو وہ درست ہی ہے ۔ اور جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ صحیح نہیں۔ دوسرے ریسرچرز کی نظر ثانی ایک میکانیزم کی پیروی کو تو یقینی بنا تی ہے لیکن اگر وہ میکا نیزم ہی غلط ہو تو کیا فائدہ؟
1991 میں ڈیوڈ فریڈمین جو کہ یونیورسٹی آف کو لمبیا میں سو شیالوجسٹ اور مقداری تجزیے کے طریقوں پر کئی کتابوں کے مصنف تھے نے یہ کہہ کر ریگریشن ما ڈلنگ کی بنیا دوں کو ہلا دیا” میرے خیال میں عام دلائل میں ریگریشن کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ نہ ہی ر گریژ ن کی مساوات پیچیدہ محرکات کو کنٹرول کرنے میں کوئی مدد کرتی ہیں “۔(فریڈ مین 1991:292) فریڈمین کے آرٹیکل کئی سخت ردعمل کا باعث بنے۔ رچرڈ برک (1991:315) نے لکھا فریڈ مین کے دلائل “کو ماننا مقدار ی سو شیالوجسٹ کے لیے بہت مشکل ہو گا۔ یہ ان کی سلطنت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اور یہ ان کے پورے کرئیر کو خطرے میں ڈال دیتے ہے”۔
تنقید جو کہ رجحانات کی پیشن گوئی کے ثبوت کا مطالبہ کرتی ہے کے جواب میں رگر یژن ماڈلز آمریت کا اظہار کرتے ہیں ۔ وہ اتنے پیچیدہ دلائل دیتے ہیں کہ صرف ماہر ریگریشن تجزیہ کار ہی ان کو سمجھ سکتے ہیں ۔ اکثر یہ طریقہ کامیا ب رہتا ہے۔ ناقدین تنقید چھوڑ دیتے ہیں ۔ فیلی ڈلفیا انکوائر کے مصنف ڈیوڈ بولٹ (1999) ، ہتھیاروں ، قتل کی شرح پر لوٹ کو سن کر اور ماہرین کو پڑھ کر افسوس کر تے ہوئے کہا ۔ “تعلیمی دلائل کو سمجھنا بیو قوفوں کی جنت کے مترادف ہے۔ آپ ٹی۔ سٹیٹکس ، ڈمی ویری ایبل اور پوائی زن بمقابلہ لیسٹ سکوئرکے ڈیٹا کے تجزیہ کرنے والے طریقوں میں ڈوب جائیں گے”۔
بولٹ کا یہ خیال کہ اس کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے درست تھا۔ درحققیت سوشیا لوجی اور کرمنالوجی میں کوئی ایسی ریسرچ نہیں ہے جس کو اکانو میڑی میں ڈگری کے بغیر پالیسی بنا نے والوں یا صحافیوں کو سمجھائی جا سکے۔ چنا چہ یہ ماننے کا وقت ہے کہ یہ سب کچھ صحیح نہیں۔ صارفین کو ، اکانومیڑک ماڈل پیش کئے جانے پر ،ثبوت پر اصرار کرنا چاہیے کہ کیا یہ ماڈل اس ڈیٹا کے متعلق جس سے یہ ماڈل تخلیق نہیں کیا گیا ،رجحانات کی پیشن گوئی کر سکتا ہے۔ ماڈل جو اس کسوٹی پر پورا نہ اتر تے ہوں، خراب سائنس ہیں چاہے ان کے پیچھے کتنے ہی پیچیدہ تجزیات کیوں نہ ہوں۔
ریفرنس
برک رِ چرڈ اے،1991 ٹورڈ اے میتھا لوجی فار میئر مورٹلس سو شیالوجی میتھا ڈالوجی 21 :315-324۔ بولڈ ، ڈیوڈ 1999۔ ” سٹڈی ایو ی ڈینس آن گنز ” فلی ڈیلفیا انکوئرر دسمبر 14 ڈاؤن لوڈڈ آن مئی 17 ،2000۔
http://www.phillynews.com/inquirer/99/Dec/14/opinion/BOLDT14.htm
بلیک ، ڈان ۔ اینڈ ڈینیل ناگن 1998 ۔ ڈو رائٹ ٹو کیری لاز ڈیٹر وائلینٹ کرائم؟جنرل آف لیگل سٹڈیز 27:209/219
بونر ،ریمنڈ اینڈ فورڈ فیسن ڈرن ، 2000۔ سٹیٹس وِد نو ڈیتھ پلینٹی شئیر لو ہو می سائڈ ریٹس” نیویارک ٹائمز ، ستمبر 22 ڈاؤن لوڈ ڈ فرام http://www.nytimes.com/2000/09/22/national/22DEAT.html
ڈونو ہو ، جان اینڈ سٹیون لیوٹ ، لیگل لائزڈ ابور شن اینڈ کرائم سٹین فورڈ یونیورسٹی لاء سکول ۔
ڈاؤن لوڈڈ ان اگست 2000 فرام
http://papers.ssrn.com/paper.taf?ABSTRACT_ID=174508
فاکس ، جیمز ۔2000۔ ڈیمو گرافک اینڈ یو۔ ایس ہومی سائڈ، اِ ن اے ۔ بلم سٹیم اینڈ جے ۔ وال مین (ای ۔ڈی ۔ایس)، دی کرائم ڈراپ اِ ن امریکہ کیمبرچ یونیورسٹی پریس ، نیو یاک ، صفحہ ۔288-317
فریڈ مین ، ڈیوڈ 1991 ۔ سٹیسٹیکل ماڈلز اینڈ شو لیڈر ۔ سوشیالوجیکل میتھاڈالوجی 21:291-313
لوٹ، جان ۔2000۔ مور گنز ، لیس کرائم : انڈر سٹینڈنگ کرائم اینڈ گن کنڑول لاز ، یونیورسٹی آف شکاگو پریس ، سیکنڈ ایڈیشن وِد ایڈیشنل اینا لسز
لوٹ، جان۔ اینڈ جان وِٹلی ۔ 2001 ۔ ابور شن اینڈ کرائم : ان وانٹڈ چلڈرن اینڈ آؤٹ آف ویڈ لاک برتھس ، “ییل لاء اینڈ اکانومکس ریسرچ پیپر نمبر 255 ڈاؤن لوڈڈ آن جولائی 9 ،2001 فرام
http://papers.ssrn.com/sol3/papers.cfm?abstract_id=270126
مارول ، تھامس اینڈ کارلائل مودی، سی ۔ 1997۔ دی ایمپیکٹ آف پریزن کنٹرول آن ہومی سائڈ ۔ ہومی سائڈ سٹیڈیز 1:205-233
زمرنگ ، فرینک اینڈ گورڈن ہاکنگز ۔ 1997 ۔ کونسیلڈ ہینڈ گنز : دی کاؤنٹر فِٹ ڈٹر ینٹ، دی رسپانسو کمیونٹی 7:4660